حیوانیاتی دریافتیں: دنیا کی وسعت اور تنوع کا سفر

Zoology Zone
0

 حیوانیاتی دریافتیں: دنیا کی وسعت اور تنوع کا سفر

حیوانیاتی دریافتیں صرف نئے جانوروں کو ڈھونڈنے کا نام نہیں ہیں، بلکہ یہ فطرت کے پیچیدہ نظام، زندگی کے ارتقاء اور اس کرۂ ارض پر موجود حیرت انگیز تنوع کو سمجھنے کا ایک جاری سفر ہے۔ یہ دریافتیں ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ دنیا کتنی بڑی اور متنوع ہے بلکہ یہ بھی سکھاتی ہیں کہ ہم اس قدرتی نظام کا کتنا چھوٹا حصہ ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسی بہت سی دریافتیں ہوئی ہیں جنہوں نے حیوانیات کے علم کو مکمل طور پر بدل دیا اور ہمیں زندگی کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کیا۔



"حیوانیاتی دریافتیں "


:ابتدائی دور اور جدید سائنس کی بنیاد

حیوانیاتی دریافتوں کی تاریخ انسانی تہذیب جتنی ہی پرانی ہے۔ ابتدائی انسانوں نے اپنی بقا کے لیے جانوروں کو سمجھا اور پہچانا، لیکن سائنسی بنیاد پر ان کا مطالعہ قدیم یونان سے شروع ہوا۔ ارسطو (Aristotle) کو حیوانیات کا پہلا باقاعدہ ماہر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے جانوروں کی درجہ بندی (classification) کے ابتدائی اصول وضع کیے اور ان کے جسمانی اعضاء اور عادات کا مشاہدہ کیا۔ لیکن حیوانیات میں حقیقی انقلابی دور 18ویں صدی میں کارل لینئس (Carl Linnaeus) کی درجہ بندی کے نظام (Taxonomy) کے ساتھ آیا، جس نے دنیا بھر کے جانداروں کو ایک سائنسی نام دینے اور ایک منظم طریقے سے ترتیب دینے کی بنیاد رکھی۔ اس نظام نے نئی دریافتوں کو سائنسی برادری کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ ریکارڈ بنایا۔

:بڑی دریافتیں اور پرانی کہانیوں کا سچ بننا

19ویں اور 20ویں صدی میں دنیا بھر کی وسیع پیمانے پر کھوج اور سفر نے حیوانیات کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کے دور دراز علاقوں سے نامعلوم جانوروں کو لایا گیا، جن میں سے کچھ نے سائنسی دنیا کو حیران کر دیا۔ ان میں سے چند انتہائی اہم دریافتیں درج ذیل ہیں

: کویلیکینتھ (Coelacanth)

 شاید یہ حیوانیات کی تاریخ کی سب سے حیران کن دریافتوں میں سے ایک ہے۔ کویلیکینتھ ایک قدیم مچھلی ہے جسے سائنسدانوں نے ڈائناسور کے دور (تقریباً 66 ملین سال پہلے) ہی معدوم قرار دے دیا تھا۔ 1938 میں، جنوبی افریقہ کے ساحل پر ایک مچھیرے نے اتفاقاً ایک عجیب و غریب مچھلی پکڑی۔ اس مچھلی کی شناخت جب ماہرین نے کی تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ یہ مچھلی کویلیکینتھ ہی تھی جسے کروڑوں سال پہلے معدوم سمجھا جا چکا تھا۔ اس دریافت نے سائنسی نظریات کو چیلنج کیا اور "زندہ فوسل" (Living Fossil) کی اصطلاح کو جنم دیا۔ یہ آج بھی سمندر کی گہرائیوں میں پائی جاتی ہے اور ارتقاء کے عمل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

:اوکاپی (Okapi)

  افریقی جنگلات میں دریافت ہونے والا یہ ایک اور حیرت انگیز جانور ہے۔ اوکاپی کی شکل و صورت کچھ حد تک زرافہ (giraffe) سے ملتی ہے، لیکن اس کی پچھلی ٹانگوں پر زیبرا کی طرح کی پٹیاں ہوتی ہیں۔ طویل عرصے تک اسے افریقی جنگلات کی لوک کہانیوں کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ 1901 میں ایک برطانوی مہم جو ہیری جانسٹن (Harry Johnston) نے کانگو کے گھنے جنگلات میں اس کی کھال اور ہڈیاں حاصل کیں۔ اس دریافت نے ثابت کیا کہ دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں بھی بڑے اور نامعلوم جانور موجود ہیں۔




"اوکاپی"



 :دیو ہیکل سکویڈ (Giant Squid)

 یہ دیو ہیکل جانور صدیوں سے جہاز رانوں کی کہانیوں اور سمندری دیومالا کا حصہ رہا ہے، لیکن اس کی موجودگی کا سائنسی ثبوت بہت بعد میں ملا۔ 1857 میں ڈینش ماہر حیوانات یپیتھس سٹریو اسمنڈ کرسٹینسن (Japetus Steenstrup) نے اس کے سائنسی نام Architeuthis dux کا اعلان کیا اور اس کے نمونے اکٹھے کرنا شروع کیے۔ 2004 میں جاپانی سائنسدانوں نے پہلی بار زندہ دیو ہیکل سکویڈ کی ویڈیو فوٹیج حاصل کی۔ یہ دریافتیں ہمیں سمندروں کی بے پناہ وسعت اور اس میں چھپی ہوئی انوکھی مخلوقات کے بارے میں بتاتی ہیں۔

:جدید دور کی دریافتیں: ٹیکنالوجی کا کردار

آج کے دور میں حیوانیاتی دریافتوں کا انداز بدل چکا ہے۔ اب سائنسدان صرف جنگلات اور سمندروں کی کھوج تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نئی انواع کی شناخت کر رہے ہیں۔

گہرے سمندروں اور دور دراز جنگلات کی دریافتیں: حالیہ برسوں میں، گہرے سمندروں میں چلنے والے خودکار آبدوزوں (submersibles) نے ایسی مخلوقات دریافت کی ہیں جو انتہائی دباؤ اور اندھیرے میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ اسی طرح، دور دراز جنگلات، خاص طور پر ایمیزون اور کانگو جیسے علاقوں میں، ہر سال سینکڑوں نئی پودوں اور جانوروں کی انواع دریافت ہو رہی ہیں۔ ان میں چھوٹے کیڑے مکوڑوں سے لے کر نئی قسم کے مینڈک اور سانپ بھی شامل ہیں۔

 :ڈی این اے اور جینیات کا کردار

جدید جینیاتی سائنس نے حیوانیات کے میدان میں ایک نئی راہ کھولی ہے۔ اب سائنسدان صرف جانوروں کی ظاہری شکل پر انحصار نہیں کرتے بلکہ ان کے ڈی این اے کا تجزیہ کر کے یہ معلوم کرتے ہیں کہ کیا وہ واقعی ایک نئی نسل ہیں یا کسی اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے ذریعے "کریپٹک اسپیشیز" (Cryptic Species) کو دریافت کیا گیا ہے، جو ظاہری طور پر ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن جینیاتی طور پر مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح، جینیاتی تجزیوں نے ماضی میں معدوم سمجھی جانے والی نسلوں کو "دوبارہ دریافت" کرنے میں بھی مدد کی ہےـ



"ڈی این اے"


 

 :(Camera Traps) جدید کیمرہ ٹریپس

، جو حرکت کا پتہ لگا کر خود بخود تصویریں یا ویڈیوز بناتے ہیں، نے جنگلی حیات کی خفیہ زندگی کو ریکارڈ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدانوں نے شیروں، تیندوں اور دیگر نایاب جانوروں کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے، جنہیں عام طور پر دیکھنا ممکن نہیں تھا۔

:حیوانیاتی دریافتوں کی اہمیت

حیوانیاتی دریافتیں محض تجسس کو پورا نہیں کرتیں بلکہ اس کی کئی اہم وجوہات ہیں

 : :حیاتیاتی تنوع کا عمل

 یہ دریافتیں ہمیں زمین پر موجود حیاتیاتی تنوع کی مکمل وسعت اور پیچیدگی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ہر نئی نسل ماحولیاتی نظام کے لیے ایک اہم پہیلی کا حصہ ہوتی ہے۔

  :تحفظ کی کوششیں

 جب تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ کون سی نسلیں موجود ہیں، ہم ان کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ نئی دریافتیں ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ ہم ان نسلوں اور ان کے مسکن کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

  طبی تحقی:بہت سے جانوروں کے جسم میں ایسے کیمیائی مرکبات اور خصوصیات ہوتی ہیں جو انسانی امراض کے علاج اور نئی ادویات کی تیاری میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

:خلاصہ

حیوانیاتی دریافتوں کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی، جب کہ دنیا کے بیشتر حصے نقشے پر موجود ہیں، ہمارے سمندروں کی گہرائیوں، زمین کے دور دراز جنگلات اور پہاڑوں میں ہزاروں لاکھوں ایسی نسلیں موجود ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی تجسس کی بدولت، یہ امید ہے کہ ہم آنے والے سالوں میں اس دنیا کے ان گنت رازوں کو کھولتے رہیں گے اور زندگی کی حیرت انگیز دنیا کے بارے میں مزید جانیں گے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !